Skip to main content

ہجرتوں کا موسم ۔۔!!


۔۔۔۔ کو کو کو۔۔۔۔!!۔۔۔


مجھے جھیل کنارے بیٹھے بیٹھے کب گھنٹے بیتے پتا ہی نہ چلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گہری سوچ میں گم میرے ہوش اس وقت بحال ہوئے جب پرندوں کا ایک جھنڈ زور زور سے آوازیں نکالتا قریب ہی جمع ہونا شروع ہوا۔ دور نیلگوں  آسمان سے اڑ کر آتے یہ پرندے اور پانی میں ان کے جھنڈ کے بنتے عکس سے ایک رومانوی منظر گویا کینوس پر رنگوں کی طرح بکھر رہا تھا۔ یہ منظر اتنا خوبصورت تھا کہ 2 ہفتے گزرجانے کے  باوجود اب بھی میری انکھوں میں پوری آب و تاب کے ساتھ قید ہے۔



یہ بدین کی ایک خوبصورت جھیل تھی جو نہ صرف تنہائی کے خوبصورت لمحات گزارنے اور قدرتی حسن سے لطف اندزو ہونے کی بہترین جگہ ہے بلکہ دور دیس سے آٗئے مہمانوں کا ان دنوں آشیانہ بھی تصور کی جاتی ہے جو سخت سردی سے بچنے کیلئے سائیبریا سمیت دیگر سرد علاقوں سے لاکھوں کی تعداد میں پاکستان اور بھارت کے علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور پاکستان  میں خصوصاً سندھ کی جھیلوں اور ممبئی کے ساحلوں کو اپنا  مسکن  بناتے ہیں۔ ان رنگین خوبصورت آبی پرندوں کے دلفریب نظارے سرد موسم کو مزید نکھار دیتے ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ سال کے 4 مہینے قیام کرنے والے سائبیرین پرندوں کا لوگ بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔ سندھ میں برسوں سے مقامی افراد جو ماحول دوست ہیں اور ہجرتی پرندوں کونسل در نسل دیکھتے آرہے ہیں، وہ سردی کے وقت میں ان کی آمد سے بہت خوش ہوتے ہیں اور ان کو دل ہی دل میں خوش آمدید کہتے ہیں اور مہمان پرندوں کی آمد پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔



کہتے ہیں کہ پہلے سندھ میں جہاں جنگلوں میں موجود ڈاکو اپنی وارداتوں کے دوران سیدوں اور خواتین کو نہیں لوٹا کرتے تھے وہیں یہاں کے باشندے موسم سرما میں آئے غیر ملکی پرندوں کو مہمان تصور کرتے ہوئے ان کا شکار نہیں کیا کرتے تھے۔ اب شاید ان روایات پر ہر کوئی اس طرح عمل نہیں کرتا تاہم ان مہمانوں کی آمد پہلے سے کم صحیح لیکن جاری ہے۔


پرندوں کی قیام گاہیں


عموماً ہم انہیں سائبیرین برڈ یعنی سردی کے موسم میں ہجرت کرنے والے سائبیریا کے پرندے کہتے ہیں جو ہجرتی پروازیں کرتے قدرے گرم علاقوں میں چند ماہ بسر کرتے ہیں۔ جب سردی اور برف جمنے کی وجہ سے دریاؤں اور جھیلوں کی مچھلیاں پانی کی تہ میں چلی جاتی ہیں اور ان پرندوں کو خوارک اور گرم ماحول کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ سرد ہوائیں شروع ہوتے ہی جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان اور بھارت کے ساحلی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ بدین سمیت دیگر علاقوں کی جھیلیں، چھوٹی بڑی نہریں، پانی کے قدرتی ذخائر اور کھیت کھلیان ہجرتی آبی پرندوں سے بھر جاتے ہیں۔ پاکستان میں موسم سرما کے آغاز پر ہی جہاں روس سائیبریا اور دیگر سرد مقامات سے آنے والے مہمان اور نایاب پرندوں کی آمد شروع ہو جاتی ہے وہیں اس کے ساتھ ساتھ شکاری اور بیوپاری بھی سرگرم ہوجاتے ہیں۔


ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال کراچی سمیت سندھ کے 8 سے زائد اضلاع خصوصاً بدین، سجاول، ٹھٹھہ اور کراچی میں لاکھوں سائبیرین پرندے آتے ہیں۔ یہ پرندے خصوصاً سندھ کی 11 جھیلوں کے کنارے کے علاقوں میں پڑاؤ ڈالتے ہیں۔ ضلع بدین کی ساحلی پٹی کے زیرو پوائنٹ، نریڑی جھیل، رامسر سائیٹ ہالیجی جھیل ٹھٹہ، گاڑھو جھیل، اسی طرح کراچی کے ساحلی علاقوں مبارک ولیج، ماڑی پور، ہاکس بے، ابراہیم حیدری سے ریڑھی گوٹھ کے ساحل تک اور ڈینگی اور بھنڈار سمیت دیگر جزائر میں بھی یہ ہجرت کرنے والے پرندے خاصی تعداد میں نظر آتے ہیں۔



آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا


ان پرندوں کیلئے پاکستان کے علاقوں کا رخ کرنا بھی کسی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا، اکثر ان پرندوں کی مثال آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا جیسی ہوتی ہے کیوں کہ یہ معصوم پرندے سخت سردی سے بچنے کیلئے جب یہاں کا رخ کرتے ہیں تو بندوقیں اور جال تھامے شکاری ان کے انتظار میں گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔  کراچی کی بات کی جائے تو یہاں ماہی گیر کے روپ میں شکاری کراچی سے کھلے سمندر تک 200 جزیروں پر قیمتی آبی باز جیسے پیریگرین سمیت دیگر پرندوں کا شکار  کرتے ہیں اور انہیں پورا پورا سال اپنا ذریعہ معاش بنائے کلفٹن، ڈیفنس، گذری اور گڈاپ کے علاقوں میں فروخت کرتے ہیں، صرف یہ ہی نہیں بلکہ کچھ صاحب حیثیت بیوپاری جن کی پہنچ دور تک ہوتی ہے، انہیں ابوظہبی، دبئی اور جرمنی  تک پہنچاتے ہیں۔ کبھی ان پرندوں کو زندہ بیچ کر پیسے کمائے جاتے ہیں تو کبھی ان کے گوشت کو کافی عرصے تک کولڈ اسٹوریج میں رکھ دیا جاتا ہے اور ان کے گوشت کی پکی مختلف ڈشیں کراچی، ٹھٹھہ اور بدین کے مخصوص ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں فروخت کی جاتی ہیں۔



محکمہ وائلڈ لائف


سما ڈیجیٹل نے جب محکمہ وائلڈ لائف سے رابطہ کرکے ان کی حفاظت اور ملوث افراد کیخلاف محکمانہ کارروائی سے متعلق سوال کیا تو متعلقہ افسران کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے ان پرندوں کی دیکھ بھال کیلئے فی پوائنٹ رقم مختص کی جاتی ہے تاکہ ان پرندوں کو بریڈنگ کا ماحول اور دانے سمیت دیگر سہولتیں فراہم کی جاسکیں تاہم سیزن میں بہت کم فنڈز مختص کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان پرندوں کیلئے 11 اہم جھیلوں میں دانا ڈالنے سمیت دیگر سہولتیں فراہم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ محکمے کے مطابق سائبیرین پرندوں کی آمد کا سیزن ستمبر سے فروری تک ہوتا ہے۔


پرندوں کی اقسام


محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق 50 سے زائد اقسام کے پرندے سردی کے موسم میں سندھ کا رخ کرتے ہیں، جس کی بڑی تعداد بدین اور ٹھٹہ میں رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ ہجرتی آبی پرندوں میں چیکھلو، نیرگی، ڈگھوش، آڑی، مرغابی، کونج، گریبس، گیز، ڈارٹرز، بگلا، ایریٹس، اسٹورکس، آئبائیس، اسپونبلز اور دیگر شامل ہیں۔


سجاول میں نایاب پرندے ڈگھوش کا گوشت 1500روپے، نیرگی 800 روپے، چیخلہ 400 روپے، کھیڑانٹی300 روپے اور آڑی کو بھی 300 روپے میں فروخت کیا جاتا ہے۔ ماہی گیر بھی لانچوں میں شکار شدہ پرندے ساحلی علاقوں میں لاتے ہیں۔ سندھ کے متعدد اضلاع میں یہ پرندے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں آتے ہیں تاہم زیادہ تر پرندے ضلع سجاول کی جھیلوں میں اترتے ہیں۔ ان پرندوں پر کام کرنے والے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق گزشتہ 2 سالوں میں 220 اقسام کے 6 لاکھ سے زائد پرندوں نے پاکستانی علاقوں کا رخ کیا، تاہم موسمی حالات اور دنیا میں آتی دیگر تبدیلیوں کے باعث اب یہ تعداد وقت کے ساتھ ساتھ گھٹتی جا رہی ہے۔ جس کی ایک وجہ سندھ بھر میں بارشوں کی کمی اور خشک سالی بھی بتائی گئی ہے۔


پرندوں کا روٹ


یہ پرندے 3000 میل سے زائد کا فاصلہ طے کرکے کاغزستان، افغانستان کے رستے جسے گرین روٹ یا انڈس فلائی وے کے راستے آگست میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں پہنچتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ ایک ماہ کے بعد سندھ کا رخ کرتے ہوئے ساحلی پٹی کو مسکن بناتے ہیں،جو ان کیلئے موزوں علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ساحل سے صوبہ سندھ کے ساحلی علاقوں میں آنے والے مہمان دریاؤں، نہروں، جھیلوں اور ڈیموں کی جانب آتے ہیں، جب کہ دوسری جانب یہ پرندے عالمی گرین روٹ (انڈس فلائی زون) روٹ نمبر 4 سے بھی آتے ہیں اور سندھ کی آبی گزرگاہوں اور دیگر علاقوں میں قیام کرتے ہیں، یہاں سے یہ پرندے پرواز کرتے ہوئے بھارت کے علاقے راجھستان میں واقع کیولا نیشنل پارک اور دیگر سمتوں تک پہنچتے ہیں۔

محکمہ کے ذرائع اور پرندوں پر کام کرنے والے غیر سرکاری اداروں کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں آبی پرندے سردی کے وقت یہاں پر پہنچتے ہیں، جو مشکل سے 4 ماہ تک رہتے ہیں اور جنوری کے آخر سے پھر سے یہاں سے جانا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ سلسلہ فروری تک ختم ہوجاتا ہے۔،

شکاریوں کیخلاف کارروائیاں


سما ڈیجیٹل سے گفتگو میں بدین میں مقرر وائلڈ لائف کے ضلع آفیسر گیم وارڈن سریش کمار کا کہنا تھا کہ ہجرتی پرندے سندھ میں مہمان تصویر کیے جاتے ہیں، ان کی نسل کشی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ وائلڈ لائف افسر کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں میں محکمے کی جانب سے ایسے افراد کو گرفتار کیا گیا، جو غیر قانونی طور پر مرغابیوں سمیت دیگر پرندوں کے شکار میں ملوث تھے اور ان کے خلاف وائلد لائف ایکٹ کے تحت مقدمہ بھی درج کرکے جرمانہ وصول کیا گیا۔ اس ملوث افراد کو اس صورت میں رہا کیا جاتا ہے کہ اگر وہ اس بات کی ضمانت دیں کہ آئندہ وہ ایسی کسی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ شکاریوں اور بیوپاریوں سے برآمد کیے گئے زندہ پرندوں کو بعد ازاں ہالیجی جھیل میں قدرتی ماحول میں آزاد کردیا جاتا ہے۔ سریش کمار نے مزید بتایا کہ حالیہ موسم میں ستمبر سے اب تک 2 درجن سے زائد بدین میں پرندوں کا شکار کرنے والے شکاریوں کے خلاف وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے جا چکے ہیں۔

ان پرندوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کیلئے کام کرنے والوں میں بدین سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن حیدر قمبرانی، خان سموں، دریا خان کھوسہ اور دیگر شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر متعلقہ محکمہ وائلڈ لائف کے عملے کی لاپرواہی کو روکا جائے تو پرندوں کی آمد سردی کے دنوں میں زیادہ ہو سکتی ہے۔

تصاویر کیلئے بشکریہ جعفر میندھرو اور سلیمان میندھرو


Comments

Popular posts from this blog

In Parachinar, Shias tell Sunnis it is time to come home

As Fata merges with KP, the hope of peace and stability getting more and more stronger in one of the most troubled area of Pakistan, and its no other Place but Parachinar..!! It was a sweet, awkward moment. The brigadier held out the keys. The Sunni tribesman stood there, surrounded by a nervous yet puffed-up crowd. “Take the key, take the key!” someone prompted him. He hesitated for a moment, unsure and aware of too many people around him. It had taken several rounds of talks and confidence-building measures to bring him to this point. But when he did take the keys, three heavy seconds later, a sigh of relief was expelled and people clapped. Everyone knew that years from now, they would all be able to say this was the moment when one place in Fata did something to leave some collective pain behind. This historic ceremony was held last week in Parachinar to welcome back 10 Sunni families who had fled when sectarian violence erupted in 2007 . The fighting left hundreds dead a

ISIS recruits in Afghanistan

Afghanistan can perhaps be labelled as one of the most war affected country in the world. Peace has seldom been achieved since the  Soviet invasion . After the end of the Soviet occupation, the country saw severe infighting over power which led to major internal armed conflicts. The fact that Afghan groups who took arms against the former USSR but later turned to each other for support is not a surprising story. By nature, Afghans are a tough people, they have further been hardened by a war they fought against an extremely powerful foe. It was only natural all major players involved in the Afghan jihad saw themselves fit to lead the nation and reign supreme as well. Many of these warlords were mostly interested in serving their own purposes, rather than work towards the greater good of the locals. But this changed after the  rise of the Taliban  in the mid-90s. Within a few months, a major part of the country was under Taliban rule. They were received in a mixe

How Jamrud Kid Think About FATA Merger..!!

Kids will say the darndest things. And children from the place formerly called Fata are no different.  “Today we joined Pakistan,” said 10-year-old Yasir when we called him up after the news broke of the merger of the two regions into one province. “We got independence today. We have reunited with Pakistan.” He added that the last thing is what he had learnt from overhearing the way his elders were talking at his home’s hujra. The merger of tribal area with K-P is not less than the day of independence for the people of Fata. “We have been given equal rights like other Pakistanis for which we thank Prime Minister Shahid Khaqan Abbasi,” he said. There have been mixed feelings in the place formerly called Fata. In Khyber Agency the few people Samaa Digital spoke to said they were interpreting it as a “reunification” of sorts. “Shadows of darkness in the shape of the Frontier Crimes Regulation system based on injustice and days of non-accountability are over,” said Najeeb Afr